ایران نے دمشق میں اپنے سفارتخانے پر حملے کے جواب میں سنیچر کو رات گئے اسرائیل پر 200 سے زائد میزائل اور خودکش ڈرونز داغے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایران کی طرف سے داغے گئے میزائلوں اور ڈرونز کی بڑی اکثریت کو اسرائیل کی حدود میں پہنچنے سے قبل ہی ’ایرو ایریئل‘ نامی فضائی دفاعی نظام اور خطے میں موجود اتحادیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا ہے۔
اسرائیل کا ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ سست رفتار ڈرونز کے بجائے اونچائی سے داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کو ناکام بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس سے قبل غزہ جنگ کے آغاز میں اسرائیل نے یمن سے داغے گئے حوثی بیلسٹک میزائلوں کو مار گرانے کے لیے بھی ایرو ڈیفنس سسٹم کا استعمال کیا تھا۔
اس مضمون میں ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل کا ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے، یہ کیسے کام کرتا ہے اور یہ آئرن ڈوم سے کیسے مختلف ہے۔
اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل‘ دفاعی نظام کیا ہے؟
ایرو ایریئل کے نظام کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے اسلام آباد میں مقیم میزائل ایکسپرٹ سید محمد علی سے بات کی ہے۔
سید محمد علی کے مطابق دنیا کا کوئی بھی ائیر ڈیفنس یا میزائل ڈیفنس سسٹم تین بنیادی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے:
- ریڈار سسٹم
- کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم
- انٹرسپٹرز یا میزائل
ریڈار سسٹم کا بنیادی کام طویل فاصلے سے مکمل فضائی حدود کی نگرانی کرنا ہے، یہ میزائل اور طیاروں کے مابین دوست اور دشمن کی تفریق کے ساتھ ساتھ اس کی سمت، رفتار اور ممکنہ اہداف کے تعین کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں ریڈار کے حوالے سے تمام معلومات 24 گھنٹے رئیل ٹائم میں آپریٹرز تک پہنچ رہی ہوتی ہیں۔
سید محمد علی کے مطابق میزائل ڈیفنس کے ایڈوانس سسٹم طویل فاصلے اور تیزی سے پرواز کرنے والے کروز اور بیلسٹک میزائل کے خلاف ڈیزائن کیے جاتے ہیں لہذا صرف ریڈار پر ان کی معلومات اور اہداف کے تعین کا انحصار نہیں ہوتا بلکہ ڈیٹا لنک کے ذریعے فضا میں موجود ارلی وارننگ ائیر کرافٹ سسٹم کے علاوہ سیٹیلائٹ کا ڈیٹا بھی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تک پہنچ رہا ہوتا ہے تاکہ ریڈار جیم ہونے کی صورت میں بھی دیگر ذرائع سے وارننگ ان تک پہنچ سکے۔
کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں کیے جانے والے اہم فیصلوں میں اہداف کی ترجیح بھی شامل ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے سید محمد علی کا کہنا ہے کہ جیسے کل جتنے بڑے پیمانے پر حملہ کیا گیا جس میں 200 سے زائد میزائل اور ڈرون داغے گئے، اس صورتحال میں اس نظام میں ڈرونز یا میزائل کی سمت، رفتار اور پرواز کی نوعیت کے لحاظ سے اہداف کی ترجیح کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے یعنی کونسے ہدف اہم ہیں جنھیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور کونسے کم اہم ہیں۔
سید محمد علی کا کہنا ہے اس سب کا انحصار ’دفاعی حکمتِ عملی‘ پر منحصر ہے، یعنی اگر کوئی میزائل اسرائیل کے ایٹمی ری اکٹر کی طرف جا رہا ہے تو یقیناً اسرائیل اسے زیادہ اہمیت دے گا۔ کن حساس اہداف کو بچانا ہے، اس کا فیصلہ تو جنگ سے پہلے کیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر دفاعی نظام ڈیزائن کیا جاتا ہے لیکن کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں اہم فیصلہ یہ کیا جاتا ہے کہ 100 میزائل داغے جانے کی صورت میں کونسے ایسے ہیں جنھیں سب سے پہلے تباہ کیا جائے۔
کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا رابطہ انٹرسپیٹرز سے ہوتا ہے اور اسرائیل کے پاس کئی طرح کے انٹرسیپٹرز موجود ہیں جن میں ایرو ون، ٹو، تھری وغیرہ شامل ہیں۔ اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام ’کئی تہوں‘ پر مشتمل ہے اور یہ اتنا جدید ہے کہ اس میں ایروز سے لے کر آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلنگ وغیرہ بھی شامل ہیں جو ڈرون، کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل کے خلاف کام کرتا ہے۔
سید محمد علی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا رقبہ جتنا کم ہے ان کا رسپانس ٹائم بھی اتنا ہی کم ہے اسی لیے انھوں نے ایک ہمہ جہت اور پیچیدہ ائیر اور میزائل ڈیفنس سسٹم تیار کیا ہے۔
0 Comments