پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ چاند کے سفر پر روانہ ہو گیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ مشن چین کے ہینان سپیس لانچ سائٹ سے چاند کے سفر کے لیے خلا میں روانہ کیا گیا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے اس موقع پر قوم اور سائنسدانوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آئی کیوب قمر‘ سیٹلائٹ خلا میں پاکستان کا پہلا قدم ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جوہری میدان کی طرح اس میدان میں بھی ہمارے سائنسدان، انجینیئرز اور ہنرمند اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
وزیراعظم نے انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کی کور کمیٹی، اس کے رکن ڈاکٹر خرم خورشید، سپارکو سمیت تمام ٹیم خاص طور پر پراجیکٹ میں حصہ لینے والے طالب علموں کوخراج تحسین پیش کیا۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ آٹھ ممالک میں سے صرف پاکستان کے منصوبے کو قبول کیا جانا ہمارے سائنسدانوں اور ماہرین کی قابلیت کا اعتراف ہے اور یہ تکنیکی ترقی کے سفر کا بہت تاریخی لمحہ ہے، اس اہم کامیابی سے پاکستان خلا کے بامقصد استعمال کے نئے دور میں داخل ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کامیابی سیٹلائٹ کمیونیکیشن کے شعبے میں پاکستان کی صلاحیتوں کو بڑھائے گی، سائنسی تحقیق، اقتصادی ترقی اور قومی سلامتی کے لیے نئے مواقع بھی پیدا کرے گی۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی (آئی ایس ٹی) سے منسلک پروفیسر نے جب گذشتہ سال ایک عالمی ادارے ’ایپسکو‘ کو یہ تجویز بھیجی کہ پاکستان چاند کے مدار تک ایک سیٹلائٹ بھیجے گا تو غالباً ان کے ادارے کے افراد کو زیادہ امید نہیں تھی کہ اس تجویز کا جواب انھیں مثبت انداز میں اور جلد ہی موصول ہو گا۔
اب اس تجویز کا نتیجہ اس شکل میں نکلا کہ پاکستان چین کی مدد سے اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے جو چاند کے مدار تک اپنے سیٹلائٹ بھجوا چکے ہیں۔
مگر ایک پروپوزل بھجوانے کے خیال سے یہ منصوبہ کیسے شروع ہوا؟ اس کی تکمیل کے لیے پاکستانی سائنسدانوں نے نہایت کم مدت میں سیٹلائٹ کیسے تیار کیا اور اس کے فوائد کیا ہوں گے؟
اس کہانی کی ابتدا سنہ 2022 میں اس وقت ہوئی جب چینی نیشنل سپیس ایجنسی (سی این ایس اے) نے ایشیا پیسیفک سپیس کارپوریشن آرگنائزیشن کے ذریعے اپنے رکن ممالک کو چاند کے مدار تک مفت پہنچنے کا ایک منفرد موقع فراہم کیا۔
ایشیا پیسیفک سپیس کارپوریشن آرگنائزیشن (ایپسکو) سنہ 2008 میں قائم کی گئی تھی جس کا مقصد اس خطے میں خلائی تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ایپسکو کے رکن ممالک میں پاکستان، بنگلہ دیش، چین، ایران، پیرو، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ترکی شامل ہیں۔
اسلام آباد کے انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی (آئی ایس ٹی) کی جانب سے ایک پروپوزل (تجویز) تیار کر کے ایپسکو کو بھجوایا گیا جو منظور کر لیا گیا اور پھر پاکستان میں خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو کی معاونت کے ساتھ آئی ایس ٹی کی ایک ٹیم نے اس سیٹلائٹ پر کام شروع کیا جس میں مختلف شعبوں کے طلبا بھی شامل تھے۔
یوں لگ بھگ دو سال کی محنت کے بعد سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ کو مکمل کیا جا سکا۔
سٹیٹسٹا کے لیے کام کرنے والی صحافی کیتھرینا بیوکولز کی تحقیق کے مطابق دنیا کے چھ ممالک کی خلائی ایجنسیاں جن میں امریکہ، سابقہ سوویت یونین (موجودہ روس)، چین، جاپان، انڈیا اور یورپی یونین شامل ہیں نے چاند کے مدار میں اور چاند پر یا اس کے قریب اپنے مشن بھیجے ہیں۔
ان کے علاوہ جنوبی کوریا، لگزم برگ اور اٹلی امریکی اور چینی راکٹوں کے سہارے چاند کے مدار تک جا چکے ہیں اور اب پاکستان بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ اس مشن میں پاکستان کی جانب سے بھیجے جانے والی سیٹلائٹ کیسے کام کرے گی، اس میں کیا کچھ نصب ہے اور اسے بنانے والی ٹیم کو اس کی تیاری میں کن چیلنجز کا سامنا رہا؟
0 Comments